PM Pakistan Shahid Khaqan Abbasi

SHAHID KHAQAN ABBASI
The ever 1st Prime Minister of
ISLAMIC REPUBLIC OF PAKISTAN
From Kohsar of Murree Hills & Circle Bakote
وہ اہلیان کوہسار جو 182 برس قبل حرمت وطن پر قربان ہوئے
 ان کیلئے انعام ربانی کا وقت آ ہی گیا
 

----------------
انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سکھوں نے جو بیج بویا تھا ، ان کی اولادوں نے 1947 میں اس کی فصل کاٹ لی
 اور افلاک سے نالوں کا جواب آ ہی گیا
 

----------------
 پاکستان کے پہلے بلدیاتی الیکشن میں یو سی دیول کی جنرل کونسلر کی نشت بھی ہار نے والے بابو عجب خان کا پوتا

شاہد خاقان عباسی

کوہسار مری اور سرکل بکوٹ سےپہلااور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اکیسواں وزیر اعظم 
*****************************
تحقیق و تحریر 

محمد عبیداللہ علوی آف بیروٹ
مورخ، صحافی، انتھروپالوجسٹ اور بلاگر

*****************************
     کیا میں جانتا ہوں کہ ۔۔۔۔ جب میری قبر (اگر نصیب ہوئی تو ۔۔۔۔) پر منوں مٹی پڑی ہو گی، جھاڑیاں اگی ہوئی ہوں گی ۔۔۔۔ اور میرا بکھرا ہوا خاکی وجود قبر میں زبان حال سے پکار رہا ہو گا کہ ۔بر مزار ما غریباں، نے چراغاں نے گُلے
نے پر پروانہ سوزد ... نے صدائے بلبلے
مگر امید کی جا سکتی ہے کہ شاید ایسا نہ ہو ۔۔۔۔ اگر میں نے کچھ نیکیاں آگے بھیجی ہوں گی، نیکی یہ بھی ہے کہ اگر پلے کچھ بھی نہیں تو غمزدہ دل کیلئے خلوص بھری ایک مسکراہٹ بھی نیکی ہوتی ہے ۔۔۔۔
انیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا ذکر ہے، ڈوگرہ درندہ ہری سنگھ نلوہ اہلیان کوہسار پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا تھا ۔۔۔۔ جان، مال اور عزت و آبرو بھی خطرے میں تھی ۔۔۔۔ ڈوگرہ فوج پنجاب ہزارہ کی صوبائی بائونڈری کے مقام پر ایک قلعہ اور چوکی قائم کرنا چاہتی تھی، مقامی لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ تھے، وہ اپنی ماں دھرتی کو اس قلعہ سے عزت کی پامالی سے تعبیر کرتے تھے چنانچہ ۔۔۔۔ پرائمری سکول دیول کی پرانی سائٹ پر پیر صاحب دیول شریف عبدالمجید علویؒ اور ڈاکٹر عبدالخالق علوی کے پڑدادا مولانا ہاشم علوی کی زیر قیادت دیول میں ڈوگروں کیخلاف اعلان جہاد ہو گیا ۔۔۔۔ اہلیان دیول ہی نہیں ، بیروٹ سمیت گردونواح کے سارے لوگ بھی پروانہ وار اس جہاد میں شریک ہوئے، جدید اسلحہ سے لیس سکھ فوج نے گھیرائو کر کے ۔۔۔۔ کوہسار کے ان فرزندوں ۔۔۔۔ کو اپنی دھرتی کی حرمت بچاتے بچاتے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا، پھر دیول کی مائیں بہنیں اپنے معصوموں کے ساتھ اپنے دروازوں کو بھی بند کئے اور مویشیوں کو ساتھ لئے بغیر کنیر کس عبور کر گئیں ۔۔۔۔ یہاں کے بعض خاندانوں کی ریالہ، پلک، ملکوٹ، نکر قطبال اور لہور میں پراپرٹی بھی تھی ۔۔۔۔ جن کی نہیں تھی، بدڑھیال، قطبال اور خانال ڈھونڈ عباسی قبیلہ نے نہ صرف انہیں خوش آّمدید کہا بلکہ ان لٹی پٹی خواتین کے لئے آنکھیں بھی بچھا دیں ۔۔۔۔ ان کی ضرورت حیات کا سارا سامان بھی فراہم کر دیا ۔۔۔۔ شہدائے دیول کے یہ خاندان 1860 تک وہاں ہی رہے ۔۔۔۔ شہدا میں نامزد وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کئی پُرکھے  بھی شامل تھے (بحوالہ تاریخ پونچھ، از سید محمود آزاد، پنڈی گزیٹیئر1909، پنجابی مسلمان ازجے ایم وکلے، دی پنجاب چیفس از سر لیپل گریفن، ہزارہ گزیٹیئر1907) ترجمہ پروفیسر صابر کلوروی مرحوم ۔۔۔) یہ ظلم و ستم یہاں تک ہی نہیں رکا بلکہ بعض حریت پسندوں کو ان وحشی سکھوں نے گرفتار کر کے موجودہ قلعہ گرائونڈ میں اپنے اپنے قلعے کے بنیادوں  میں لٹا کر ان کے اوپر دیواریں بھی کھڑی کیں۔ (بحوالہ ، تارخ گکھڑاں از حیدر زمان کیانی)، بعد ازاں انہوں نے علاقے میں جی بھر کر لوٹ مار کی اور کوہسار کی خواتین جن کی تعداد تاریخ پونچھ کا فاضل مورخ سید محمود آزاد اور تاریخ ہزارہ کا مصنف عبدالرشید پنی بتا تے ہیں دھیر کوٹ اور پونچھ کے راستے جموں پہنچائی گئیں ۔۔۔۔ راستے میں وہ روٹی طلب کرتیں تو ان کے سامنے گھاس ڈالی جاتی اور ندی نالوں کا پانی پلایا جاتا، اس صعوبت بھرے سفر میں جو خواتین چلنے کے قابل نہ رہتیں انہیں خنجر مار کر وہیں ہلاک کر دیا جاتا ۔۔۔۔ اس طرح جموں صرف 50 خواتین پہنچ سکیں اور پھر انہیں جموں چوک میں سر عام نیلام کیا گیا ۔۔۔۔ کیا اس وقت آسمان بھی نہ رویا ہو گا ۔۔۔۔؟ اگر حرمت رسول ﷺ پر قربان ہونے والے ممتاز قادری کی پھانسی گھاٹ پر فریاد نے نواز شریف کی بادشاہی پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا تو ۔۔۔۔ بے کسی کی حالت میں خنجر کھانے اور جموں چوک میں نیلام ہونے والی ہماری عفت مآب خواتین کی فریاد پر عرش الٰہی نہیں کانپا ہو گا ۔۔۔۔۔؟
1947 میں اوسیاہ ہائی سکول کا استاد بھگت سنگھ جس کے پیچھے اس کے ہونہارجذبہ جہاد سے سرشار شاگرد تھے ۔۔۔۔ اپنے انجام سے باخبر اس ٹیچر نے آخر کار دریائے جہلم میں چلانگ لگا دی تھی ۔۔۔۔ دیول بازار کا ایک آڑھتی ہوشناک سنگھ جس کے کلمہ پڑھنے کو دیول کے لوگوں نے مسترد کر دیا تھا اور اس کے کلہاڑیوں سے ٹوٹے کر دئیے گئے تھے ۔۔۔۔ کنیر پل پر سکھ خواتین کو ذبح کر کے انہیں دریائے جہلم میں کیوں پھینکا گیا تھا ۔۔۔۔۔؟ 1832 میں مقامی لوگوں پر ظلم ڈھانے والوں کی یہ اولادیں تھیں ۔۔۔۔ اب ہماری فریادیں قدرت نے سن لی تھیں، ہم آزاد ہو رہے تھے، دیول کے ہوشناک سنگھ، اوسیا کے استاد بھگت سنگھ اور کنیر پل پر بے بسی کی موت مرنے والی سکھ خواتین کو اہلیان کوہسار نے نہیں مارا تھا بلکہ وہ اپنے آبا و اجداد کے اس ظلم کا قصاص تھیں جو اہلیان کوہسار پر انہوں نے کئے تھے ۔۔۔۔ کیونکہ ساحر لدھیانوی فرماتے ہیں کہ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ، یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمتِ پرکارکے ایما سے کہو
خون دیوانہ ہے ‘ دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہء تند ہے ‘خرمن پہ لپک سکتا ہے
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں ‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھائؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دبائؤ تو دبائے نہ بنے

 میں سکھوں نے جو بیج بویا تھا ، ان کی اولادوں نے 1947 میں اس کی فصل کاٹ لی ۔۔۔۔ خدا کے حضور ان دیول کے شہدا اور دیول قلعہ کی بنیادوں کی بھرتی بننے والے اپنی دھرتی کے محافظوں کی فریادوں نے بھی کیا عرش الٰہی کو ہلایا نہیں ہو گا ۔۔۔۔؟ جی جی بلکل ۔۔۔۔ عرش الٰہی ضرور کانپا ہو گا ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ بقول شاعر مشرق ۔۔۔۔۔۔ 1832 میں سکھوں نے جو بیج بویا تھا ، ان کی اولادوں نے 1947 میں اس کی فصل کاٹ لی ۔۔۔۔۔
افلاک سے آتےے ہیں نالوں کے جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طائوسٔ رباب آخر

186 برس بعد ۔۔۔۔ اہلیان کوہسار کو اپنی بے بسی، اپنی عفت مآب خواتین کی بے کسی، صدیوں کے صبر کا انعام قدرت کی طرف سے مل گیا ہے ۔۔۔۔ پہلے کے پی کی وزارت اعلی، پھر کے پی کے (پاکستان) اور ہریانہ، بہار اور اترپردیش (انڈیا) کی گورنری اور اب ۔۔۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ سے اللہ رب العزت نے شہدائے کوہسار کی اولادوں کی جھولی بھر دی ہے ۔۔۔۔ بس اب رب کے شکر کا وقت ہے ۔۔۔۔ سر سجدے میں رکھ کر اس کا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نہ کرو، شکر کرنے والوں کو وہ مزید عطا کرتا ہے ۔۔۔۔؟
انیس سو باسٹھ میں پاکستان کے پہلے الیکشن ہوئے، دیول سے کاملال ڈھونڈ عباسی برادری کے بابو محمد عجب خان نے بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ان انتخابات میں حصہ لیا، انتخابی نشان گھوڑا تھا اور مقابلہ نمبردار سردار ربان خان سے تھا، ربان خان اپنے وقت کے رئیس سردار دادن خان کے پوتے اور صوبیدار میجر ہاشم خان کے بیٹے تھے اور دونوں بلدیاتی امیدواروں میں یہ عجب اتفاق تھا کہ دونوں ماموں بھانجھا بھی تھے اور ایک دوسرے کے مد مقابل بھی ۔۔۔۔ دیول کے ووٹروں نے دھڑا دھڑ ووٹ ڈالے، دوسرے روز رزلٹ آیا تو بابو محمد عجب خان یہ الیکشن ہار گئے تھے، دیول کی اس پہلی یونین کونسل کے پہلے چیئرمین ٹھیکیدار اشرف خان بن چکے تھے ۔۔۔۔ عجب خان رینج افسر تھے اور سیدے نی چہٹی کے رہنے والے مگر قدرت نے انہیں عالی دماغی سے نوازا تھا ۔۔۔۔ اپنی محدود آمدن کے باوجود انہوں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، اور پھر ان کا بیٹا کمیشن حاصل کر کے پاک فضائیہ کا ہوا باز اور آخر میں کوہسار کا پہلا ایئرکموڈور بن گیا ۔۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے مشرق وسطیٰ میں کاروبار شروع کیا اور کوہسار کے اتنے لوگ وہاں لے گیا کہ ۔۔۔۔ دیول کی موجودہ شان و شوکت اسی کی مرہون منت ہے ۔۔۔۔ وہ جنرل ضیا کی پہلی ڈیمو کریسی میں جونیجو حکومت کا حصہ بن کر وزیر پیداوار بنا ۔۔۔ مگر وہ جتنی زندگی لیکر آیا تھا 1988 میں واپس اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔۔۔۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اہلیان کوہسار کا جو اقتدار اعلیٰ پہلے روات کے پاس تھا اب گھوڑا گلی میں رُل رہا تھا مگر اس نے اس اقتدار اعلیٰ کو پھر شمالی تحصیل مری کی راہ دکھائی اور اس وقت اہلیان دیول اسی کی بدولت اسلامی جمہوریہ پکستان کے سب سے اعلیٰ انتظامی و عوامی منصب تک پہنچے ہیں ۔۔۔۔ یہ شخص دیول کی ڈھوک سیدے نی چہٹی کا مکین ۔۔۔۔ خاقان عباسی شہید تھا ۔۔۔۔ اب 1962 کے بلدیاتی الیکشن میں جنرل کونسلر کی نشست بھی ہارنے والے سابق رینج افسر بابو عجب خان کا پوتا ۔۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ۔۔۔۔۔ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے ہی والا ہے ۔۔۔۔ ؟


خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے ۔۔۔۔۔؟
***************
ملک کے سب سے بڑے صوبے یا بگ برادر کے آخری شمال مشرقی یو سی کے باسی ۔۔۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ۔۔۔۔۔ کو ماہ جولائی کی آخری گھڑیوں تک کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز ہونے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر خدا نے اپنے بندے کو پوچھ لیا کہ اس کی مرضی کیا ہے ۔۔۔۔۔؟ کل حلف اٹھانے تک سوائے مری میں اپنے باسز کے سامنے تشہد کی حالت میں بیٹھنے کے اس کی بدن بولی میں دیکھنے والوں نے کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں کی ۔۔۔۔۔ وہی اس کی طبیعت کی درویشی اور عاجزی ۔۔۔۔۔ مگر آج صبح جب وہ اپنے پی ایم آفس پہنچا، ریڈ کارپٹ استقبال اور پھر اس کو صدر مملکت کے چاک و چوبند دستے کی سلامی ۔۔۔۔۔ اس کی بدن بولی بتا رہی تھی کہ اسے ایک بار پھر۔۔۔۔۔۔ دولہا بنا دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ وہی بارات والا رنگ روپ، وہی ایک دم بدلنے والا بارونق سرخ چہرہ ۔۔۔۔۔ سبحان اللہ

 خاقان عباسی شہید
جسے جنرل ضیا کی دعوت کھینچ کر وطن لائی ۔
--------------------
وہ ۔۔۔۔۔ کہ جس نے جی ٹی روڈ روڈ کو عالمی معیار کی شاہراہ بنا دیا ۔
--------------------
وہ ۔۔۔۔۔ کہ جس نے راولپنڈی مری روڈ کو 30کی شاہراہ بنا کر سارا سفر 4 گھنٹے کا کر دیا ۔۔۔۔ کوہساریوں کیلئے ویک اینڈ اپنے گھر میں منانا ممکن ہو گیا۔
---------------------
وہ ۔۔۔۔ کہ جس ایک فرد پر ہزاروں ایسی جماعتیں قربان جو نسلوں کی قسمت ۔۔۔۔ بدل دیتا ہے۔
---------------------
وہ ۔۔۔۔۔ جو وزیر اعظم پاکستان کے والد محترم ۔۔۔۔۔ 1962 میں پہلے بلدیاتی الیکشن میں جنرل کونسلر کا الیکشن ہارنے والےبابو عجب خان کے فرزند اور دیول کے پہلے مسلمان اور عباسی اور وائسرائے ہند لارڑ ایکنک کے اے ڈی سی کپتان کرم داد خان کے بھتیجے ۔۔۔۔۔ایئر کموڈور خاقان عباسی شہید ۔۔۔۔ تھے ۔
**************************************
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
**************************************
خاقان عباسی شہید
ضیاءالحق کا دور تھا۔ وہ سعودی ملکوں سے ملنے سعودی عرب گئے تو وہاں ان کا شاہی تقریب کے دوران ایک پاکستانی سے جو مری کا رہائشی تھا تعارف کروایا گیا ۔۔سعودی ملکوں نے ان کی روڈ کنسٹرکشن میں مہارت کو بہت سراہا۔۔۔۔۔ ضیا نے ان صاحب کو واپس اپنے ملک آنے کی رسمی دعوت دی جسے انہوں نے فارمل سمجھ کر قبول کر لیا کیونکہ یہی تو ان کے دل کا ارمان تھا۔
اس واقعے کے چند ماہ بعد وہ پاکستان آئے اور صدر سے ملنے ایوان صدر چلے گئے ضیاءالحق نے انہیں گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) پنڈی تا لاہور بنانے کا ٹھیکہ دے دیا ۔انہوں نے اپنی تمامتر مہارت کو بروئےکار لاتے ہوئے بہترین رزلٹ دیا۔ضیا الحق ان کا کام دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انہیں ضیائی لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی حسے انہوں نے قبول کر لیا۔ لیکن ساتھ ہی وہ صاحب اپنے دل میں انگڑائیں لیتی اپنی ایک دیرینہ خواہش کو بھی زبان پر لے آئے اور کہنے لگے
جناب صدر مری تا پنڈی روڈ بہت تنگ ہے ایک گھنٹے کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اگر اجازت دیں تو اس روڈ کو دورویہ بنادیا جائے۔
ضیا نے انہیں ٹالنے کے لئے کہا
یہ ایک میگا پروجیکٹ ہے اس کے لئیے اگلے سال کے بجٹ میں ہی گنجائش نکالی جا سکتی ہے اس سال تو ممکن نہیں ۔
وہ صاحب ترنت سے بولے۔
ٹھیک ہے آپ اگلے سال کے بجٹ میں اس پروجیکٹ کے لئے پیسے رکھیں لیکن مجھے اگر اجازت دیں تو میں اسی سال اپنی جیب سے پیسے لگا کر کام شروع کروا دیتا ہوں۔
صدر کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا انہوں نے اجازت دے دی چنانچہ اجازت ملتے ہی زور و شور سے سڑک کی توسیع کا کام شروع ہوگیا۔سات آٹھ ماہ کی ریکارڈ قلیل مدت میں 12فٹ کی سنگل سڑک کو 30 فٹ کی دو رویہ سڑک میں تبدیل کرکے مری اور کشمیر کے لوگوں کی عملا قسمت بدل کے رکھ دی۔ گنھٹوں پر محیط سفر کو منٹوں میں تبدیل کر دیا۔ یوں لوگ ویک اینڈ مری میں گزارنے لگے۔ مری کو ہل سٹیشن کا درجہ مل گیا ۔ سیاحت کو فروغ حاصل ہوا جس سے علاقے میں خوشحالی آئی۔ باغ تا پنڈی 9 گھنٹوں کا سفر سمٹ کر چار گھنٹوں میں سمآ گیا ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ ان صاحب کا اپنے لوگوں کی مدد کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
پی ٹی آئی اور جے آئی کے ناعاقبت اندیش لوگ کہتے ہیں ایک ہی خاندان کے لوگ کیوں حکومت کریں ۔ میں کہتا ہوں اس ایک فرد پر ہزاروں ایسی جماعتیں قربان جو نسلوں کی قسمت بدل دیتا ہے۔ اور پھر مہربان راجا اور پرجا کا تعلق تو خود خدا نے ڈیفائن کررکھا ہے ہم کون ہوتے ہوتے ہیں خدا سے لڑنے والے۔۔
کیا آپ جانتے ہیں یہ صاحب دل شخص کون تھے؟ ۔۔۔۔۔یہ حال ہی میں بننے پاکستان کے عبوری وزیراعظم جناب شاھد خاقان عباسی کے والد بزرگوار۔۔۔۔ جناب خاقان عباسی صاحب ۔۔۔۔تھے جو اوجڑی کیمپ حادثے میں شہید ہوگئے تھے۔ اگر زندہ رہتے تو سدھن گلی اور ڈھلی تک مری جیسی دو رویہ روڈبنی ہوتی۔ کیونکہ یہ ان کا نکسٹ پروجیکٹ تھا۔ لیکن وقت نے اس ہیرے کو مہلت نہ دی۔۔اور شہادت کے رتبے پر فائز کرکے جلد ہی اپنے پاس بلا لیا ۔ اللہ پاک کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین ۔۔۔۔

بے تکلف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات
کلبۂ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں، گلشن میں، ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
  ماخوذ، نہیں معلوم کہ یہ تحریر کس کی ہے ۔۔۔۔ جس کی بھی ہے بہت خوب ہے، اس م کے آخر میں علامہ اقابال کے اشعار کا اضافہ راقم السطور نے کیا ہے ۔
*************
بول ٹی وی پر
 وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی
کے خلاف عامر لیاقت حسین کی نان سٹاپ ہرزہ سرائی
--------------------
اب ایسا نہیں چلے گا ۔۔۔۔ شو میں علمیت اور نیوز کم اور بلیک پروپیگنڈہ زیادہ ہے --------------------
ڈھونڈ عباسی برادری  سے متعلق ان کے اپنوں کی لکھی چند کتابیں تو موجود ہیں مگر ان کا اندازتحقیقی  افسانوی ہے --------------------
قبیلائی تاریخ کے علمی اثاثے میں ہزاروں کتابوں کے اثاثوں کے حوالے سے پہلا نمبر علوی اعوان برادری کا ہے، دوسرے پر گجر اور تیسرے پر راجپوت ہیں
**********************
میرے کوہسار سرکل بکوٹ، کوہ مری، گلیات اور آزاد کشمیر کے کچھ نہائت محترم دوستوں نے میری توجہ اس جانب مبذول کی ہے کہ ۔۔۔۔ پول ٹی وی چینل کے اینکر پرسن ۔۔۔۔ عامر لیاقت حسین ۔۔۔۔۔ ان دنوں کوہسار سے وزیر اعظم ۔۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ۔۔۔۔ کیخلاف خاصے بھونک رہے ہیں، میرے ان دوستوں نے بھونکنے کے اس عمل میں جس خاص بات کا انہوں نے نوٹس لینے کی بات کی ہے وہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔ عامر لیاقت حسین ۔۔۔۔ عباسیوں کی عالم اسلام پر 5صدیوں سے زائد حکمرانی کی شاندار تاریخ کو مسخ کر رہا ہے ۔۔۔۔ واقعی یہ نہ صرف علمی خیانت ہے بلکہ بہت بڑا جُرم بھی ۔۔۔۔ اس حد تک تو برداشت کیا جا سکتا ہے سیاسی اختلافات یا کسی کی سیاسی تھیوری  کو مسترد کرتے ہوئے اس کیخلاف عصری حالات و واقعات سے حقائق کشید کر کے قارئین و ناظرین کے سامنے پیش کر دئیے جاویں مگر یہ جرم کسی صورت میں قابل قبول نہیں کہ ۔۔۔۔ عالم اسلام کی آٹھ سو سال قبل کی وہ 5  صدیوں تک حکومت کرنے والے قبیلہ کی شاندار دینی، فکری اور علمی خدمات کو بیک قلم مسترد کیا جاوے یا اس سے انکار کی قابل مذمت ناپاک جسارت کی جاوے ۔۔۔۔ مجھے پورے نیٹ پر خلافت عباسیہ  کیخلاف عامر لیاقت کی مبینہ ہرزہ سرائی تو نہیں ملی مگر ۔۔۔۔ سابق مجرم وزیر اعظم کی زیر صدارت کوہ مری میں ہونے والے اجلاسوں سے لیکر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حلف اٹھانے اور بعد میں آج تک کے عامر لیاقت کے روزانہ بول ٹی وی کے پروگرام ۔۔۔۔ ایسا نہیں چلے گا ۔۔۔۔  میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف جو زہر اگل رہا ہے وہ ساری ویڈیوز یوٹیوب پر دیکھی ہیں اور افسوس اس بات پر ہو رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔ اس کے ان پروگراموں میں معلومات کم اور بلیک پروپیگنڈہ زیادہ ہے اور ملک دشمن قوتوں نے عامر لیاقت کو ٹھیکہ دیا ہوا ہے کہ ۔۔۔۔ وہ دیول کی طرف منہ کر کے رات کے پچھلے پہر ۔۔۔۔ جی بھر کر بھونکنے ۔۔۔۔ کے ارمان پورے کر ے ۔۔۔۔ ایسی علمیت اور دانشوری پر اللہ رب العزت، اس کے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام، ملائک اور روئے زمین پر موجود انسانوں اور جنوں سمیت تمام جانداروں کی لاکھوں بار لعنت ۔۔۔۔۔؟
میں آج یہ تیاری کر کے آیا تھا کہ اگر عامر لیاقت نے خلافت عباسیہ پر خلاف واقعہ الزامات لگائے ہیں تو اس کے الزامات کے حوالے سے جواب دوں گا مگر اس کے اس موضوع کے حوالے سے کوئی ویڈیو نہیں مل سکی ۔۔۔۔ جہاں تک اس کے موجودہ حالات و واقعات کے حوالے سے الزامات کا تعلق ہے ۔۔۔۔ اس کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ اگر کوئی سورج کی طرف اپنی منحوس بُوتھی کر کے تھوکے تو وہ تھوک دوبارہ اسی کی بوتھی پر ہی آ کر چپکتا ہے ۔۔۔۔؟
آج میں نے ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بارے میں معلومات ڈھونڈنے کیلئے ملک کی سب سے بڑی نیشنل لائبریری  عقب پی ایم ہائوس اسلام آباد کا وزٹ کیا مگر مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ۔۔۔۔ اس لائبریری کی ڈیجیٹل کیٹیلاگ میں میں نے کتابیں چھان ماریں مگر دوسروں یعنی غیر عباسیوں، انگریز انتھروپالوجسٹس، اتھنالوجسٹس اور دوسروں کی لکھی ہوئی کتابیں تو تھیں جن میں ڈھونڈ عباسیوں کے بارے میں محض سرسری تفصیلات تھیں ۔۔۔۔ مری کے جن کشمیری مورخین نے بھی چند کتابیں لکھی ہیں ان میں بھی ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بارے میں محض اعداد و شمار ہیں کہ یہ کہاں کہاں بستے ہیں۔۔۔۔؟ محمد دین فوق ، سید محمود آزاد اور دیگر نے بھی ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بارے میں ادھوری باتیں کی ہیں ۔۔۔۔ ابھی تک ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے بارے میں اس قبیلہ کے جن افراد نے تاریخ لکھی ہے ان میں جسٹس سردار ایوب خان چمیاٹی کی آئینہ قریش، ان کے صاحبزادے ڈی ایس پی محمد اکرم خان کی عباسی شمالی پاکستان میں، نور الٰہی عباسی کی تاریخ مری، یو سی بیروٹ کے نعیم عباسی کی جنت سے عروج عباسیہ تک اور آزاد کشمیر کے ریاض الرحمٰن ساغر کی کچھ کتابیں ہیں(ان کی کتابیں ابھی تک میری نظر سے نہیں گزریں) مگر یہ کتابیں بھی اس لحاظ سے تشنہ ہیں کہ ان میں لکھنے کا انداز داستانوی و افسانوی ہے، تحقیقی نہیں، نور الٰہی عباسی نے تحصیل مری کے ہر دیہہ کے عباسیوں کے شجرہ ہائے نسب دئیے ہیں مگر موجودہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا کوئی شجرہ نسب اس کتاب میں موجود نہیں، نعیم عباسی نے جنت سے عروج عباسیہ تک میں خلافت بنو عباس  پر کافی مواد فراہم کیا ہے مگر انہوں نے خود کو ان کے علمی، سائنسی، سیاسی اور تہذیبی کارناموں کے بجائے جنگی مہمات تک محدود رکھا ہے ۔۔۔۔ ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے عصر جدید کے ایک اور محقق یو سی بیروٹ کے ۔۔۔۔ ڈاکٹر مدثر عباسی الازہری ۔۔۔۔ ہیں، انہوں نے بھی جامعہ الازہر سے عباسی برادری کے بارے میں عراق کے حوالے سے تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے تاہم میں نے ان کا یہ مقالہ پڑھا نہیں اس لئے کوئی رائے نہیں دے سکتا ۔
قبیلائی تاریخ میں دیکھیں تو سب سے زیادہ کتابیں علوی اعوان قبیلہ کے بارے میں ملیں گی، ملک کی ہر جامعہ میں  ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی اس برادری کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق جاری ہے ۔۔۔۔ حضرت پیر بکوٹیؒ کے بارے میں ایک طالبہ نے تحْقیقی مقالہ لکھ کر کر پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔۔۔۔ چکوال میں نجی شعبہ کی ایک لائبریری جس میں نصف لاکھ سے زیادہ علوی اعوان قبیلہ سے متعلق کتابیں موجود ہیں صرف اسی قبیلہ کی ریسرچ کیلئے وقف ہے، یو سی بیروٹ سے تعلق رکھنے والے معروف اعوان دانشور اور مورخ محبت حسین اعوان کی کتاب ۔۔۔۔ تاریخ علوی اعوان ۔۔۔۔ تو اس قبیلہ کا انسائیکلو پیڈیا اور بائیبل ہے، ان کی اپنے قبیلہ کے موضوع پر دیگر کتابیں، تاریخ اعوان، تاریخ خلاصہ الاعوان اور اعوان گوتیں ۔۔۔۔ اپنی تحقیق کی انتہا پر ہیں ۔۔۔۔ اس قبیلہ کی ہر سال کتابوں کی اشاعت ایک درجن سے زائد ہے ۔۔۔۔۔ علمی ذخیرہ کے حوالے سے دوسرے نمبر پر گوجر قبیلہ اور تیسرےپر راجپوت ہیں بلکہ راجپوت قبیلہ ہی بقول ان کے اصل آریا اور برصغیر کا وارث بھی ہے ۔۔۔۔ گکھڑ قبیلہ بھی اپنے بارے میں کافی کتابیں رکھتا ہے، جدید عہد میں تنولی عباسی، جسکمب عباسی ، کڑرال اور جدون قبیلوں سے متعلق مستنند اور ان کی اپنی لکھی تاریخی کتابوں سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ۔۔۔۔ ڈھونڈ عباسی قبیلہ کے پاس جتنے مالی وسائل ہیں اس سے تو وہ یونیورسٹی بھی قائم اور اپنا سارا قبیلائی ڈیٹا بھی انٹرنیٹ پر محفوظ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کے ایک لائبریرین ۔۔۔۔ نصیر عباسی آف بیروٹ ۔۔۔۔ کی کوششوں سے کہوٹی بیروٹ میں لگ بھگ دو ہزار کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری قائم کی گئی ہے، اب عباسی برادری کے باوسائل لوگوں پر یہ فرض کفایا ہے کہ وہ عباسی اکثریتی علاقوں میں لائبریریاں قائم کریں، وہ خود اپنے قبیلہ کے بارے میں علمی تحقیقات کا آغاز اور اپنے مشاہیر کی زندگیاں محفوظ کریں ۔ یہ ایسا علمی ہتھیار ہو گا کہ کسی ۔۔۔۔ عامر لیاقت ۔۔۔ کو ڈھونڈ عبسیوں کے بارے گمراہ کن بلیک پروپیگنڈہ کرنے کی جسارت نہیں ہو گی ۔
خاقان عباسی شہید وی سی کہو شرقی، یو سی بیروٹ میں اپنے اعزاز میں دئیے گئے استقبالیہ سے خطاب کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ (1986) فوٹو کاشف عباسی
دختر کوہسار اور خاتون اول ڈاکٹر ثمینہ شاہد عباسی
کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
 میرے سرتاج وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی سبزی خورسادہ ترین انسان ہیں ۔۔۔۔ جتنا بڑا واقعہ ہو جاوے ۔۔۔۔۔ میرے خدائے مجاز کو غصہ نہیں آتا 
-----------------------
یوں تو ان کی بطور وزیر اعظم گوناں گون مصروفیات ہیں، مگر جب موقع ملتا ہے اپنے سارے کام خود کرتے ہیں ۔
------------------------
وہ اور میں سیاحت کے رسیا ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں نہیں مان سکتی کے میرے سرتاج سے زیادہ کوئی سیاحت کو سمجھتا ہو ۔
------------------------
میرے سُسر خاقان عباسی شہید اپنے بڑے صاحبزادے زاہد عباسی کو سیاست میں لانا چاہتے تھے مگر ۔۔۔۔۔ راولپنڈی میں اوجڑی کیمپ سانحہ نے ان دونوں کو موقع نہیں دیا ۔۔۔۔۔ یہی سانحہ ساہد خاقان عباسی کو سیاست میں لایا ۔۔۔۔۔ وہ تو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔
------------------------
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے گھر کی ملکہ اور ملک کے محافظ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور دیول کے پہلے جنرل ۔۔۔۔۔۔ ریاض عباسی ۔۔۔۔۔ کی دختر، ڈاکٹر (ایم بی ایس، امریکہ) ثمینہ شاہد عباسی کی پہلی بار میڈیا سے گفتگو ۔۔۔۔۔۔

 روزنامہ جنگ راولپنڈی ۔۔۔۔۔۔ 9 فروری 2018ء


دیول ۔۔۔۔۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسیہ اور خاتون اول اپنے بڑے صاحبزادے کی تقریب عروسی میں نئی نویلی بہو کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ شادی دیول میں ان کے آبائی گھر میں نہایت سادگی سے انجام پائی جس میں دولہا اور دلہن کے نہایت قریبی عزیزوں کو ہی مدعو کیا گیا تھا ۔
PM SHAHID KHAQAN ABBASI IN PIXES


سال 2017 میں ہچیس لاکھ سے زائد ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرانے والا 
اور وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز
شاہد خاقان عباسی 
کی زندگی کا ایک انداز یہ بھی ہے
بیروٹ کے ہائر سیکنڈری سکول سے متصل میرہ ہوٹل پر کھانا کھاتے ہوئے
اور
اپنے گھر میں ناشتہ کرتے ہوئے
دیول:  شاہد خاقان عباسی الیکشن مہم کے دوران اپنی آبائی یونین کونسل میں
اسلام آباد:وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی  کا اپنے آفس میں پہلا دن ۔۔۔۔۔ 3 اگست
اسلام آباد:وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور ان کی اہلیہ 
قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔ 14اگست2017، 

لاہور: وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کا
 وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف استقبال کر رہے ہیں


دیول: وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کا
ناظم دیول ایم ڈی اعجاز عباسی مرحوم کے ساتھ ایک یادگار فوٹو

  یونین کونسل دیول شریف کے چیئرمین
اعجاز عباسی
 ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
---------------------
ان کے ساتھ ٹھیکیدار گلزار عباسی اور ڈرائیور بھی جاں بحق، حادثہ گاڑی کی بریک فیل ہونے کے باعث پیش آیا۔
---------------------
چار افراد شدید زخمی، سی ایم ایچ مری منتقل، دو زخمیوں کو تشویشناک حالت میں ہولی فیملی راولپنڈی بھیج دیا گیا۔
---------------------
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی غمزدہ خاندانوں سے اظہار تعزیت، زخمیوں کا بہترین علاج کرنے کی ہدایت
***********************

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی آبائی شمالی تحصیل مری کی آخری یونین کونسل دیول شریف کے چیئرمیں ۔۔۔۔۔ اعجاز عباسی ۔۔۔۔ آج ایک حادثہ میں اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، ان کی عمر 63 سال تھی، ان کے ساتھ ٹھیکیدار گلزار عباسی بھی جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ تین دیگر افراد سابق ناظم دیول شریف عابد عباسی حسین عباسی سمیت چار دیگر افراد شدید زخمی ہیں جنہیں سی ایم ایچ مری جبکہ دو شدید زخمیوں کو ہولی فیملی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے جن کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے، اعجاز عباسی اور دیگر افراد ایک تقریب میں شرکت کیلئے ترمٹھیاں کھیتران روڈ پر اپنی گاڑی میں جا رہے تھے کہ ٹاہلی نکر نزد قلعہ قبرستان حد پر ان کی گاڑی کی بریک فیل ہو گئی اور سینکڑوں فٹ گہرائی میں جا گری جس کے نتیجے میں اعجاز عباسی، ٹھیکیدار گلزار عباسی اور ان کا ڈرائیور تاج عباسی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس وقت نیویارک امریکہ میں ہیں، انہیں اس المناک حادثہ کے بارے میں فوری طور پر آگاہ کیا گیا جس پر انہوں نے تینوں جاں بحق افراد کے غمزدہ اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا، انہوں نے راولپنڈی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ زخمیوں کا ہر ممکن علاج کیا جاوے اور اگر انہیں اسلام آباد یا راولپنڈی لانے کی ضرورت ہو تو ایمبولنس ہیلی کاپٹر بھی فوراً روانہ کیا جاوے ۔۔۔۔ سی ایم ایچ مری میں ڈاکٹروں نے زخمیوں کو انڈر آبزرویشن رکھا ہوا ہے جبکہ دو شدید زخمیوں کو ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی روانہ کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔ وزیر اعظم کے فرسٹ کزن حافظ عثمان عباسی اطلاع ملتے ہی جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔۔۔۔
ناظم دیول اعجاز عباسی بڑی ہر دل عزیز شخصیت تھے ۔۔۔۔ گزشتہ سال انہوں نے لوئر دیول کی خاتون ٹیچر ۔۔۔۔ ماریہ عباسی ۔۔۔۔ کے قتل یا خود کشی کیس میں بہترین مفاہمانہ کردار ادا کیا، ان کا موقف تھا کہ اگر تحقیقات میں نامزد ملزم گنہگار ثابت ہوئے تو انہیں ضرور سزا ملنی چائیے ۔۔۔۔ انہوں نے جہاں تک ہو سکا ، تحقیقات کے دوران پنجاب پولیس کی ٹیم کو ہر ممکن سہولیات فراہم کیں ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی یو سی میں حالیہ گیس سروے کے دوران بھی تمام لوگوں کو بلا امتیاز اس میں شریک کیا ۔۔۔۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرماوے اور لواحقین کو صبر جمیل سے سرفراز کرے ۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین
ہر بہار گل کو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔--۔ دور خزاں آنے کا غم
غنچہ کو گل بننے کا۔۔۔ اور گل کو مرجھانے کا غم
پائے عمر نوح انساں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ہو مرگ نوجواں
اس دار فانی میں ہے ہر انساں کو مر جانے کا غم

کلام مولانا یعقوب علوی بیروٹویؒ
----------------------------21 ستمبر، 2017


Pakistan’s new federal cabinet members took oath Friday morning at the President House in Islamabad. President Mamnoon Hussain administered oath to 48 members of Prime Minister Shahid Khaqan Abbasi’s cabinet.


While old faces returned to the cabinet, they saw a major shuffle in their portfolios. Khawaja Asif, previously who served as minister for water and power during the previous cabinet was sworn in as foreign minister. Ahsan Iqbal, who worked as minister for planning and development under Nawaz, will be the interior minister after PML-N top leadership failed to convince Chaudhry Nisar Ali Khan to join Abbasi’s cabinet. Ishaq Dar continues as finance minister and Khurum Dastagir, who was minister for commerce earlier, will now serve as minister for defence. Further, Marriyum Aurangzeb has retained the portfolio of State Information Minister and Mushahidullah Khan is back in the cabinet as Federal Minister of Climate Change.


New faces to the cabinet include Talal Chaudhry, Daniyal Aziz, Pervez Malik, Junaid Anwar, Mohsin Ranjha, Arshad Leghari and Hafiz Abdul Karim. Political observers believe the choice of new cabinet members gives an indication that the ruling party is planning to go into a confrontational mode with aggressive politics in the coming months. The anxiously-awaited oath-taking ceremony earlier saw an unexpected postponement on Wednesday after the ruling PML-N’s top leaders could not finalise the candidates to be inducted as cabinet members. The PML-N top leadership had been holding marathon huddles during the past many days in Murree. Besides finalising Abbasi’s cabinet, the party leadership has been having brainstorming sessions to devise the future course of action. Among other important issues being deliberated for the past few days in a series of meetings in Murree where former prime minister Nawaz Sharif has been living after being deposed from office is the elevation of Punjab Chief Minister Shehbaz Sharif to the centre as new prime minister. Sources in the PML-N say the younger Sharif is reluctant to leave Punjab – the province he has been governing continuously since 2008 with an iron grip. Close circles of Shehbaz claim that the chief minister feels his continuation as the chief executive of Punjab is important given the next general elections are less than a year away.



Prime Minister

Shahid Khaqan Abbasi

A PML-N loyalist

ISLAMABAD: Shahid Khaqan Abbasi, was elected Pakistan's 18th prime minister on Tuesday securing 221 out of a house of 339 votes. He is the former federal minister for petroleum and natural resources, and a businessman who launched the country´s most successful private airline. Considered highly intelligent and a long-time loyalist of Nawaz Sharif, the former prime minister who was ousted by the Supreme Court on Friday, the 58-year-old Abbasi will act as a placeholder for the Sharif dynasty. He is due to be rubber stamped in a parliamentary vote as prime minister until Sharif´s younger brother Shehbaz, chief minister of Punjab, can be elected to the National Assembly and take over the leadership. Abbasi was appointed oil minister when Nawaz Sharif won his third election in 2013. Educated in the US at George Washington University, he was born in Karachi but is a member of the National Assembly from Murree. Abbasi worked in the US and Saudi Arabia as an electrical engineer before joining politics after his father, a minister in General Zia´s government, was killed when an ammunition dump exploded in Rawalpindi in 1988. Abbasi has been elected six times as a member of the National Assembly since then, and has previously served as minister for commerce and defence production. He was the chairman of national flag carrier Pakistan International Airlines (PIA) from 1997 to 1999, until General Pervez Musharraf overthrew Sharif´s second government. Abbasi was arrested after the coup and imprisoned for two years before being released. In 2003, he setup a private airline Air Blue, the country´s most successful private airline and challenger to PIA. (Published in THE NEWS Islamabad, 1st August, 2017)



  Political upheavals
Need for stability
************************
Is Shahid Khaqan Abbasi interim or permanent prime minister?
13th August, 2017 
*************************








Pakistan has a new Prime Minister and the position of the ruling party seems to be intact in the Parliament. Throughout the Panama case, many observers had opined that with the ouster of former PM Nawaz Sharif — democracy would not be derailed. Apparently, that seems to be the case as a new PM and his cabinet will look after the affairs of the government until the 2018 elections. Beyond the apparent transition, the seeds of instability have been sown. The earlier decision of PML-N to nominate the Punjab Chief minister Shehbaz Sharif as the PM may not be working out for a variety of reasons. Managing Punjab is key to PML-N’s future prospects. After all, it is the Punjab that decides who rules Islamabad. With Shehbaz Sharif gone and given the factionalism within PML-N, it is uncertain if the younger Sharif’s successor would be able to steer the party to the next election. We had objected to the evident nepotism in Shehbaz Sharif’s nomination as the future PM. Not because Shehbaz is not fit for the job but that the recent setbacks had given a unique opportunity to the party to revise its style of governance and end the dynastic hold over the party leadership. The decision not to send Shehbaz to Islamabad has definitely not been taken to reverse the trend of dynastic politics. In fact media reports suggest that CM Sharif was keen that his son Hamza Shehbaz succeed him in the Punjab. This would have created a dynasty within a dynasty. While the PML-N may have some real fears of the party cracking up in the months to come — dynastic control is not the solution. It is likely that the recently elected PM Shahid Khaqan Abbasi may continue in office until next year. This will provide some measure of stability but this period also denotes a major challenge for the PML-N to stay intact as a party, ensure effective governance and not take any missteps that may lead to collision between state institutions. In the past whenever such conflict occurred, democratic process suffered a setback. The PMLN is aggrieved and has reservations about the Supreme Court decision. Still it has the responsibility to steer the country out of the current crisis and act as a seasoned political force. Ultimately, it is the continuity of democratic governance that matters more than individuals or even parties. For this reason, former PM Nawaz Sharif should let the law take its own course and look towards the elections of 2018. These months should also be vital for the former first family to do some stock taking and learn from the Panama debacle. They need to reflect on the mistakes they may have made. Most importantly, the Supreme Court in its eagerness to conduct accountability trials of Nawaz Sharif and family needs to take a longer view of its recent verdict and to see whether that will garner stability for the country. The real onus of ensuring political stability now rests with the permanent power centre, that is, the military establishment. For too long, political upheavals have prevented Pakistan from realizing its economic potential and it will serve the long-term interest of the country and its Army if there is a smooth transition of power in 2018 elections. (Published in Daily Times, August 4th 2017)





PM SHAHID KHAQAN ABBASI  & PRESS

روزنامہ اذکار اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 2 اگست

روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 5 اگست
  2017روزنامہ (نامعلوم) اسلام آباد ۔۔۔۔۔۔ 4 اگست



روزنامہ مشرق پشاور ۔۔۔۔۔۔ 7 اگست، 2017
روزنامہ قومی اخبار کراچی ۔۔۔۔۔۔ 7 اگست، 2017

حوالہ جات

دیول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شمالی تحصیل مری کی مثالی یونین کونسل

یو سی دیول اور خواتین کیخلاف جرائم


<<Next>>

Comments